ممتاز بھٹو صدر آصف علی زرداری کے شدید مخالف تصور کیے جاتے ہیں اس قدر
کہ وہ ان پر ذاتی نوعیت کی بھی تنقید کرتے رہے ہیں، مرتضیٰ بھٹو کی پاکستان
آمد پر وہ ان کے قریب رہے بعد میں ان کی ہلاکت پر انہوں نے پاکستان پیپلز
پارٹی شہید بھٹو اور فرنٹ کے انضمام کی بھی کوشش کی۔ بھٹو قبیلے کے سردار کے قتل کے بعد ممتاز بھٹو قبیلے کے سردار بھی بنے
گئے، مگر بینظیر بھٹو انہیں نہیں مانتی تھیں، ممتاز بھٹو سندھ میں اپنے سخت
گیر مزاج کی وجہ سے مشہور ہیں، ان کی تنظیم پر بعض میڈیا گروپس کے خلاف
کارروائیوں اور صحافیوں پر تشدد کا بھی الزام ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جی این مغل سندھ نیشنل فرنٹ کی مسلم لیگ ن
میں شمولیت کو مثبت قدم قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک وفاقی سطح کی
جماعت اور دوسری سندھ سطح کی تنظیم اگر آپس میں ملتی ہیں تو اچھا ہے، مگر
دونوں جماعتوں نے جو معاہدے یا شرائط رکھی ہیں وہ عوام کے سامنے لانی
چاہیئیں۔ فرنٹ کے مرکزی رہنما ایوب شر مسلم لیگ ن کے ساتھ مذاکرات میں شریک رہے
ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں میں یہ اتفاق ہوا ہے کہ اس ملک کو
نظریہ پاکستان کے تحت چلایا جائے گا، صوبوں کی خود مختاری اور ان کے حقوق
محفوظ ہوں گے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے سندھی رہنما
اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کی سیاسی ٹیم میں شامل لیاقت جتوئی، ماروی میمن
اور سابق ڈسٹرکٹ ناظمہ ٹنڈو محمد خان راحیلہ مگسی مسلم لیگ ن میں شمولیت
اختیار کرچکے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے انضمام سے فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچے گا یا ممتاز بھٹو
کو۔ سینئر صحافی جی این مغل کا کہنا ہے کہ ’ممتاز بھٹو کے پیپلز پارٹی سے
شدید اختلافات ہیں شاید انہوں نے سمجھا ہوا کہ اس طرح سے ان کی سیاسی
تنہائی ختم ہوجائے، دوسرا ممتاز بھٹو ایک بڑا نام ہے مسلم لیگ اس کو کیش
کرانا چاہتی ہوگئی۔‘ مسلم لیگ ن سندھ میں کوئی موثر موجودگی ظاہر نہیں کرسکی ہے، اس سے پہلے
جنرل پرویز مشرف کی سیاسی ٹیم میں شامل لیاقت جتوئی، ماروی میمن اور سابق
ڈسٹرکٹ ناظمہ ٹنڈو محمد خان راحیلہ مگسی مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار
کرچکے ہیں۔ ممتاز بھٹو کی شمولیت کے کیا سندھ کی سیاست پر اثرات مرتب ہوں
گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق’ممتاز بھٹو سیاسی شخصیت تو نامور ہیں مگر ان کی
شخصیت اور جماعت کا کوئی موثر سرگرم کردار نظر نہیں آتا ، اگر سندھ کی
سیاست پر کوئی فرق فرق پڑا تو وہ منفی نوعیت کا ہوگا کیونکہ فرنٹ کا منشور
کنفیڈریشن تھا، جس میں وفاقی ڈھانچے کے ازسر نو تشکیل کا مطالبہ کیا گیا
تھا۔‘ ’حیرانگی کی بات ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کی ہے جو نہ صرف
رائٹ ونگ ہے بلکہ پاکستان میں قومی تضادات کے بارے میں اس کا کوئی موقف
نہیں ہے، یہ ممکن ہے کہ ممتاز بھٹو کو شخصی طور پر مین اسٹریم سیاست میں
آنے کے کچھ مواقع ملیں جو اس وقت نہیں دستیاب نہیں ہیں۔‘ دریں اثنا مسلم لیگ ن نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف جاری
احتجاجی تحریک میں سندھ کے قوم پرست رہنماؤں ڈاکٹر قادر مگسی اور ایاز لطیف
پلیجو سے بھی ایک بار پھر مدد کی درخواست کی ہے، دونوں نے ان کی درخواست
پر اپنی جماعت کی مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں غور کرنے کی یقین دہانی کرائی
ہے۔
0 comments:
Post a Comment