نئی دہلی(آن لائن) بھارتی سپریم کورٹ نے قتل کے الزام میں قید ڈاکٹر
خلیل چشتی کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق
1992ء سے بھارتی جیل میں قید قتل کے الزام میں 82سالہ ڈاکٹر خلیل چشتی
کو جمعرات کے روز بھارت کی سپریم کورٹ نے پانچ لاکھ روپے کی ضمانت کے
عوض پاکستان جانے کی اجازت دے دی ہے اور حکم دیا ہے کہ وہ پانچ لاکھ
روپے کے مچلکے بھارتی سفارتخانے میں جمع کرائیں کہ وہ یکم نومبر کو
دوبارہ پاکستان سے بھارت آئیں گی اور عدالت میں پیش ہوں گی پاکستان سے
بھارت واپس نہ آنے کی صورت میں ان کے پانچ لاکھ روپے کے مچلکے ضبط ہوں
گے رہائی کی اجازت ملنے کے بعد ڈاکٹر خلیل چشتی کا کہنا ہے کہ انہوں
نے بھارتی جیل میں بہت ہی مطمئن زندگی گزاری ہے بھارتی سپریم کورٹ نے
انہیں انسانی ہمدردی کے باعث رہا کیا ہے 82سالہ ڈاکٹر خلیل چشتی
بھارت کے شہر اجمیر شریف میں اپنے بھائی کے ساتھ موجود ہیں واضح رہے کہ
ڈاکٹر چشتی 1992ء میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے ملنے بھارتی شہر
اجمیر گئے تھے جہاں انہیں ایک قتل کے مقدمہ میں پھنسا دیا گیا تھا ۔
وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ہونیوالی ایک حالیہ ملاقات میں صدر ز
رداری نے ڈاکٹر خلیل چشتی کی رہائی کامعاملہ اٹھایا تھا۔ دریں اثناء
بھارتی جیل سے رہائی پانے والے 82سالہ ڈاکٹر خلیل چشتی نے بھارتی عدالت
سے پاکستان جانے کی اجازت ملنے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ
رہائی ملنے اور پاکستان جانے کی اجازت ملنے پر بہت خوش ہوں جیل میں
20سال کی زندگی بڑی ہی مطمئن گزاری ہے میری طبعیت ٹھیک ہے اپنے بڑے
بھائی طارق چشتی سے بیس سال سے ملاقات نہیں ہوئی سب سے پہلے ان سے
ملاقات کرینگے انہوں نے کہا کہ پانچ سے دس دن میں پاکستان روانہ ہوں گا
آپ لوگ بھی بھنگڑے ڈالنے کیلئے تیار رہیں ۔ ڈاکٹر خلیل چشتی نے پاکستانی
حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں قید بھارتی قیدیوں کو رہا کرے
اپنے والد کی رہائی کی خبر سن کر ان کی بیٹی شاع چشتی کا کہنا ہے کہ وہ
والد کی رہائی پر بہت خوش ہیں رہائی پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کررہے
ہیں والد سے ملنے کیلئے بے چین ہیں خواہش ہے کہ جلد از جلد ان سے
ملاقات ہو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر خلیل چشتی بے گناہ تھے طارق چشتی جو ان
کے بھائی ہیں نئی دہلی سے وہ ان کو لینے آئیں گے ۔
Thursday, 10 May 2012
بھارتی سپریم کورٹ نے ڈاکٹر خلیل چشتی کو پاکستان جانے کی اجازت دیدی
01:58
muzaffargarhupdate
No comments
0 comments:
Post a Comment