راولپنڈی کے قریب حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے
بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ بوئنگ طیارہ کمپنی نے ایک امریکی کمپنی سے
کرائے پر حاصل کیا تھا جس کے لیے ایک لاکھ ڈالر کے قریب رقم ہر ماہ ادا کی
جاتی تھی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے اس جہاز کی ساخت
اور صورتحال کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کی سربراہی میں پانچ رکنی
ٹیم نے گزشتہ روز فاروق بھوجا سے تفتیش کی تھی۔ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق فاروق بھوجا نے ٹیم کو بتایا کہ کمپنی میں
اسّی فیصد شیئرز ارشد جلیل نامی شخص کے ہیں اور ان کا صرف لائسنس استعمال
کیا گیا ہے۔ فاروق بھوجا کمپنی میں صرف چار فیصد شیئرز رکھتے ہیں جس کے
ان کے پاس دستاویزات بھی موجود ہیں۔ارشد جلیل پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے
میں بھی اہم منصب پر رہے ہیں۔ اس وقت چین میں موجود ہیں اور ان کے ایک اور
نجی کمپنی میں بھی شیئرز تھے مگر بعد میں اس کمپنی نے بھی مالی بحران کے
باعث اپنا آپریشن معطل کر دیا تھا۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق کاغذات کے تحت حادثے کا شکار طیارے نے جنوری
انیس سو پچاسی سے اپنا آپریشن شروع کیا اور رواں سال اوور ہالنگ کے بعد
پچیس جنوری کو اس نے پاکستان سے پروازوں کا آغاز کیا۔امریکہ سے خریداری کے وقت وہاں کی سول ایوی ایشن
اتھارٹی اور بعد میں پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی اسے کلیئرنس
سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا۔اس طیارے اور بھوجا ایئر کا کچھ ریکارڈ سول ایوی
ایشن اتھارٹی نے بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق
یہ ریکارڈ بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں خاص طور پر پائلٹ کی لاگ بک شامل
ہے۔
لاگ بک میں کپتان جہاز کی پرواز اور مسائل کے بارے
میں تحریر کرتے ہیں جس سے طیارے کی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور
یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ طیارے میں اگر کوئی خرابی تھی تو کمپنی نے اس
کو دور کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔
0 comments:
Post a Comment