Monday, 25 June 2012

’’الوداع‘‘ حاجی زکریا

وہ جو کوئی بھی تھا ۔ اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ حضرت آدم ؑ سے لیکر آج دن تک آنے والے تمام انسانوں کی زندگی کے مقاصد ’’ اللہ کی عبادت ،نبی کی اطاعت اور اللہ کی مخلوق کی خدمت‘‘ ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے دنیاکے تمام نظام کواپنے ہاتھ میں رکھا اور چند دنوں پر محیط انسان کے جسد اور روح کا رشتہ قائم کر کے اسے انبیاء کرام کے ذریعے سے اچھائی اور برائی کا دائرہ کار بتا دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ہرذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ (القرآن)
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد انسان سے اُسے دیئے گئے مقاصد (اللہ کی عبادت ، رسول اللہؐ کی اطاعت اور مخلوقِ خدا کی خدمت‘‘) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ’’ حقوق اللہ ‘‘یعنی اللہ اپنے حقوق کی حق تلفی پر تو معافی دے سکتے ہیں مگر ’’حقوق العباد‘‘ یعنی اپنی مخلوق کے حقوق کی حق تلفی پر معافی نہیں دی جائے گی یہاں تک کہ انسان خودنہ معاف کر دے۔
بالکل اسی طرح گزشتہ دنوں اللہ تعالیٰ نے میرے آبائی گاؤں کی محسن شخصیت پر ’’ہرذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ کا وعدہ پورا کردیااور علاقے کے لوگوں پرتادیر سوگ کی کیفیت طاری رہی۔ اس لئے نہیں کہ یہ سادہ لوح اور معصوم لوگ اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے، اس لئے بھی نہیں کہ وہ ایک لامکان انسان تھا ۔ بلکہ اس لئے کہ ازل سے انسان کی فطرت، خدا فراموش فرعونوں سے نفرت اوراُن کوللکارنے والوں کو اپنا سا تھی سمجھتی ہے۔ فرعونوں کا معتوب جو کوئی بھی ہو۔ جیسا بھی ہو۔ انسانوں کا محبوب بن جاتاہے۔ کیا اس کی حکمت عملی، حالات و واقعات سے مطابقت رکھتی تھی کیا وہ ایک مرد داناکی طرح زمینی حقیقتوں کا شعور رکھتا تھا۔
کیا اس کے چُنے ہوئے راستوں نے عوامی مفادات کی آبیاری کی ۔ ان سوالوں پرپہلے بھی بحث ہوتی رہی ہے۔ آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جس کے فکرو عمل سے اختلاف کرنیوالا کوئی نہ ہو۔ لوگوں پر پہلے بھی سنگ زنی ہوتی رہی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ لیکن اب اسکی روح سودو زیاں کے دنیوی پیمانوں سے بہت دور جا چکی ہے۔ جوکہ انسان کی دسترس سے کوسوں دور ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس شخص نے اس راہ کا انتخاب کیوں کیا؟ دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جوشہزادگی ٹھکرا کر خدمت خلق کے مقصد کی ایسی راہوں پر نکل آتے ہیں۔ جہاں دنیاوی مشقتوں پر آخرت کے اجر کو ترجیح دی جاتی ہے۔
جہاں دنیا کی تکالیف اوراذیتوں کے سائے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایمان بیچنے والوں کی اس دنیا میں کتنے ہیں جو جنون کاایسا سرمایہ رکھتے ہوں کہ ’’ایک مظلوم سکول ٹیچر کی بحالی کی جدوجہد ہو یا کچی آبادی کے غریب مکینوں کو مالکانہ حقوق کا معاملہ یا ان لوگوں کے حقوق کی جنگ جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہائش پذیر ہوں اور جنہیں ہر دور میں پس پشت ڈالا گیاہو۔ بلا شبہ اس مرد آہن نے مظلوم ، خستہ حال انسانوں کے حقوق کے لئے بے مثال قربانیاں دیں‘‘ لیکن کیا اس کی یہ جد وجہد کسی مفاد کی متلاشی تھی؟ نہیں۔بلکہ وہ ابدی زندگی کا متلاشی تھا۔ آہ ، کچھ لوگوں کی جدائی انسانوں کو اندر سے ،کتنا بودااورکھو کھلا کردیتی ہے کہ جس کاتخیّل انسانی سوچوں سے ماورا ہے۔
میں اکثر یہ اصرار کرتا تھا کہ اب ہمیں شہنشاہ عالم پناہ سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔ لیکن ہر بار وہ مجھے اچھے وقت کی امید دلا کر خاموش ہوجاتے۔ اوراب ہمیشہ کی خاموشی اختیار کرگئے۔اُس کی زندگی تواندھیرے کا روپ دھار چکی مگر انہوں نے جو شمعیں روشن کی یقیناًوہ اُن کے لیے روشنی کا باعث ہونگی۔ (انشاء اللہ)
اب اسکا معاملہ اپنے اللہ کے ساتھ ہے ۔ بے شک وہ ہر انسان کے ظاہری اور باطنی عمل کو بھی دیکھتا ہے اور نیتوں کا حال بھی جانتا ہے اسے ہم جیسے خودفروشوں ، بزدلوں، کمزوروں، شکم پرست بونوں کے کسی تمغے کی حاجت نہیں۔
اگر اس کے اعمال بارگاہ عالیٰ میں مقبول ٹھہرے تو وہ نیکیوں کے جلو میں کسی سنہری مسند پر بیٹھا ہوگا۔ انشاء اللہ
آیئے اس کے لیے دستِ دعا بلند کریں۔ اللہ پاک اپنی رحمت سے اس کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے درگز ر فرمائے۔
اسے بے پایاں عفو وکرم سے نوازے اورا سے اپنے بندگان خاص کے مقام سے سرفراز کرے۔ (آمین)

0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India