کنگ آف کرپشن اور لینڈ مافیا کے مرکزی سرغنہ اور بحریہ ٹاون کا
مالک ملک ریاض حسین عرف ڈان جن پر الزام ہے کہ وہ ملک کے حکمرانوں، سیاست
دانوں،بیورو کریسی اور میڈیا کے اہم دلا گیروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا
کر لالچی کتے کی طرح ہڈی ان کے منہ میں ڈالی رکھتے ہیں۔اور اس ضمن میں اپنے
ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کروڑوں روپے بطور رشوت ان کو دے دیتے ہیں۔ملک
ریاض حسین کبھی ایک معمولی کلرک ہوا کرتے تھے لیکن وہ تمام قانونی و اخلاقی
حدیں پھلانگتے ہوئے اب کھرب پتی بن چکے ہیں اور ان کا دولت کمانے کا سفر
جاری ہے۔اٹھاون سالہ ملک ریاض ایک معمولی ٹھیکے دار کے گھر پیدا ہوئے اور
والد کے کاروبار میں خسارے کے بعد میٹرک پاس ملک ریاض حسین کو کلرک کی
نوکری کرنا پڑی۔ بعد میں فوج میں ایک نچلے درجے کے ٹھیکے دار کی حثیت سے
کاروبار کیا۔یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ وہ اپنے تقریبا ہر
انٹرویو میں اپنے اس دور کی تکالیف ضرور بیان کرتے ہیں۔ ان تکالیف میں بچی
کے علاج کے لیے گھر کے برتن فروخت کرنا، خود قلعی یعنی سفیدیاں کرنا اور
سڑکوں پر تارکول لگانا جیسے واقعات شامل ہیں۔ وہ اپنی مرحوم بیوی کی اس
حسرت کا بھی اظہار کرتے ہیں جو ایک پانچ مرلے کی مالکانہ حقوق پر مشتمل
تھی۔پاکستان میں نوے کی دہائی میں جب جمہوری حکومتیں گرائی جارہی تھیں تب
ملک ریاض نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کاروبار میں فوج کا ساتھ بہت سود مند ثابت
ہوگا۔ معمولی تعلیم اور دیہاتی حلیے والے اس آدمی نے بڑے بڑے فوجی افسروں
کو پیسے کمانے کے منصوبے پیش کیے۔ملک ریاض کے خلاف مقدمات کا پیروی کرنے
والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں ملک ریاض اور اس وقت
کے نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری کے ساتھ معاہدوں کی تصدیق شدہ نقول عدالت
میں داخل کرائی ہیں۔معروف عسکری تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے اپنی ایک کتاب
میں لکھا ہے کہ پاکستان کے بعض فوجی افسروں نے زمینیں خریدنے میں ملک ریاض
کی بے حد مدد کی ہے اور اس کے عوض ان افسروں کو طے شدہ حصہ ملا۔کامیابی کا
پہلا بڑا قدم وہ تھا جب نیوی نے راولپنڈی کے ہاسنگ پراجیکٹ سے توہاتھ کھینچ
لیا لیکن وہ اپنا نام اس رہائشی سکیم سے واپس نہ لے سکی۔ملک ریاض کا تیز
دماغ ایک کے بعد ایک منصوبہ بناتا چلا گیا۔ ہاسنگ سکیم کے کسی بھی فیز یا
سیکٹر کا اعلان ایسی صورت میں کیا جاتا رہا کہ اس سکیم کا زمین پر وجود
ہوتا نہ کوئی نقشہ تک ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود صرف درخواست فارم خریدنے کے
لیے لوگ دیوانوں کی طرح لائن میں لگتے دھکم پیل کرتے اور لاٹھی چارج اور
آنسوگیس کے باوجود ہٹنے کو تیار نہ ہوتے۔ ملک ریاض جو معمولی سا ٹھیکہ لینے
کے لیے دو دو روز تک کسی کیپٹن یا میجر کے دفاتر کے باہر بیٹھا رہتا تھا
اب ان سے کہیں بڑے فوجی افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک ریاض کے تنخواہ دار
ملازم ہیں۔ مسلم لیگ نون کے قائد حزب اختلاف کے مطابق انہوں نے نو سابق
جرنیلوں کو اپنا ملازم بنا رکھا ہے۔ایک پیسے پیسے کو محتاج شخص پندرہ سے
بیس سال کے عرصے میں کھرب پتی بن چکا ہے۔اس عرصے میں ملک ریاض پر مختلف
مقدمات درج ہوئے جن میں غریب اور کم زور لوگوں کو قتل کرانے، ان کی زمینوں
پر قبضے کرنے، لڑائی جھگڑے، دھوکہ دہی سمیت بہت سے مقدمات ہیں جو مختلف
عدالتوں میں زیر سماعت اور بہت سے مقدمات سے وہ بری ہوچکے ہیں اور بعض میں
وہ اشتہاری بھی ہیں لیکن پولیس انہیں گرفتار نہیں کر سکتی۔۔ملک ریاض کے
قریبی ساتھی ان کی ایک خوبی یا خامی یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک نظر میں پہچان
جاتے ہیں کہ ان کا مخاطب کس درجے کا لالچی ہے اور وہ اسی کے مطابق اس سے
ڈیل کرلیتے ہیں۔ملک ریاض جن کے حیرت انگیز طور پر بیک وقت پاکستان کے
موجودہ سابق اور مستقبل کے ممکنہ حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔سنہ
ننانوے میں ان پر نیب کے بے شمار مقدمات تھے لیکن ایک وقت آیا کہ وہ مشرف
کے دوست بن گئے۔ صدر زرداری سے ان کی اسیری کے وقت میں کی گئی دوستی آج بھی
ملک ریاض کے کام آرہی ہے۔ چودھری برادران کا کوئی کام ہو یا تحریک انصاف
کے جلسے کے فنڈز درکار ہوں چلتی ہوا کا رخ پہچان جانے والے ملک ریاض پیچھے
نہیں رہتے۔سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ جب پنجاب میں گورنر راج لگا تو
پیپلز پارٹی کے حق میں ملک ریاض نوٹوں کے اٹیچی لے کر گورنر ہاس میں موجود
رہے لیکن اس کے باوجود ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے مسلم لیگ نون کے میاں
برادران سے بھی قریبی تعلقات بھی ہیں۔یہ بات اب پاکستانی میڈیا میں آچکی ہے
کہ صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان معاہدہ بھوربن کروانے والی
شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ملک ریاض ہی تھے۔ جبکہ راولپنڈی میںسابق ڈائریکٹر
انجینئر کرنل ریٹائرڈ طارق کمال نے انکشاف کیا ہے کہ ملک ریاض نے ذاتی
مفاد کی خاطردھوکہ دہی سے ڈی ایچ اے کے ڈیڑھ لاکھ ممبران کی ملکیتی زمین
اور انکے باسٹھ ارب روپے کی خون پسینے کی کمائی بحریہ ٹائون کے نام منتقل
کی مگر اس پر کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے نہ کسی کو سزا ملی ۔ نہ
متاثرین کو زمین یا معاوضہ ادا کیا گیا جبکہ قومی احتساب بیورو سمیت تمام
انسداد رشوت ستانی و دیگر اداروں نے بھی مک مکا کر لیا۔ملک ریاض کوڈیفالٹر
ہونے کے باوجود مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیرہزاروں کنال اراضی دینے کا
سلسلہ جاری ہے جبکہ وہ عوام کے سرمائے سے اپنے عزائم کی تکمیل میں مصروف
ہیں۔ کرنل طارق کمال نے مزید کہا ہے کہ بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض نے
لیفٹیننٹ جنرل (ر)امتیازحسین مرحوم کو ڈی ایچ اے میں لوٹ مار کا راستہ
دکھایاجس کا نتیجہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل کی صورت میں
نکلاجس میں لاکھوں فوجی اور سویلین اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم
ہو گئے۔چھبیس مئی پراسرارحالات میںہلاک ہونے والے جنرل (ر)امتیازحسین نے جی
ایچ کیو میں بطور ایڈجوٹنٹ ملک ریاض کو قانون کی خلاف ورزی میںہر قسم کی
مراعات دیں اور بعد ازاں آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کے چئیرمین کی حیثیت سے بھی
انھیں اربوں روپے کے فائدے پہنچائے جس سے ادارے کمزور اور شخصیتں مستحکم ہو
گئیں۔ جلد ہی ملک ریاض اتنے با اثر ہو گئے کہ انکی مرضی کے بغیر ڈی ایچ اے
میںکسی کی تعیناتی ناممکن ہو گئی اور اعلی افسران انکے اشاروں پر ناچنے
لگے۔اس بات کا انکشاف کرنل (ر) محمدطارق کمال نے میڈیا کوجاری ہونے والے
ایک بیان میں کیا۔انھوں نے کہا کہ جنرل امتیاز مرحوم کے بعد آنے والوں نے
گھپلوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور ابھی تک ملک ریاض کو نوازنے کا سلسلہ
جاری ہے کیونکہ انکی نوکری کا دارومدار ملک ریاض کی مرضی پر ہے اور وہ
دوستوں کو نوازنے میں کسی بڑے سیاستدان سے کم نہیں۔جنرل امتیازکے بعد آنے
والوں نے ایسے معاہدے کئے جنکے سامنے رینٹل پاور سمیت کسی جمہوری معاہدے کی
کوئی حیثیت نہیں۔کرنل طارق کے مطابق گھپلوں میں سب سے ممتاز مقام حاصل
کرنے والے میںڈی ایچ اے افسران میں برگیڈئیر(ر)جاوید اقبال،
برگیڈئیر(ر)جاوید اشرف باجوہ،برگیڈئیر(ر) مختار احمد طارق، کرنل (ر) محمد
فاروق پرویزاورکاشف شریف شامل ہیں ۔اس لوٹ مار میں بحریہ ٹائون کے ملک ریاض
حسین کے علاوہ انکے صاحبزادے احمد علی ریاض ملک حبیب رفیق لمیٹڈکے مالک
زاہد رفیق بھی براہ راست ملوث ہیں۔مرحوم اپنی غلطیوں پر پشیمان تھے جبکہ
دیگر کرپٹ عناصر پھل پھول رہے ہیں۔انکی موت کی ایف آئی آر درج نہ کرنے اور
کیس دبانے کی تحقیقات کی جائیںتو چونکا دینے والے انکشافات ہو سکتے ہیں۔
جبکہ بحریہ ٹان کے کیسوں میں ایک بڑی پیشرفت صدر آصف علی زرداری نے ملک
ریاض کے ذاتی محافظ جس نے 2010 میں سیکٹر ایف 8 اسلام آباد میں ایک شخص کو
قتل کردیا تھا اور اعتراف جرم پر عدالت نے سزا دی تھی کو معافی دے دی ہے
جبکہ اسکی اپیل ابھی تک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔ محافظ محمد بشارت ولد
تاج محمد نے 4 دیگر افراد کے ساتھ 9 جنوری 2010 کو ایف 8 مرکز میں فائرنگ
کے ایک واقعہ میں ایک شخص کو قتل کردیا تھا اور ماتحت عدالت میں اعتراف
کرلیا تھا جس نے ملزم کو 33 برس قید سخت کی سزا سنائی۔ اس کے اعتراف کے
باعث دیگر تمام کو رہا کردیا گیا تھا۔ بشارت نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی
تھی اور اس کی اپیل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق صدر
زرداری نے سزا پانے والے مجرم کی باقی سزا چند روز قبل معاف کردی ہے اور
وزارت داخلہ نے 13 جون 2012 کو محکمہ داخلہ پنجاب کو مذکورہ قیدی کی جلد
رہائی کیلئے ایک انتہائی فوری خط ارسال کیا ہے۔ دوسری طرف بااعتبار ذرائع
نے دی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ پنجاب حکومت نے مذکورہ قیدی کو اس بنیاد پر
رہا کرنے سے انکار کردیا ہے کہ صدر کسی مجرم کی معافی یا سزا کے خاتمے پر
عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد غور کرسکتے ہیں۔ 13 جون 2012 کو وزارت
داخلہ اسلام آباد کی طرف سے محکمہ داخلہ پنجاب کو لکھے جانے والے لیٹر نمبر
(F.No.3/100/2011-PTNS) میں کہا گیا ہے عنوان: قیدی محمد بشارت ولد تاج
محمد کی رحم کی اپیل جواب سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں قید ہے ڈیئر سر
مجھے مندرجہ بالا عنوان آپ کو ارسال کرنے اور یہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے
کہ صدر مملکت نے سزا یافتہ محمد بشارت ولد تاج محمد جوکہ مقدمہ ایف آئی آر
نمبر 19/10 بتاریخ 9/01/2010 353, 337-F, 337-C, 148, 149, 324, 316 U/S
تعزیرات پاکستان 1997, 7ATA جوکہ پولیس تھانہ مارگلہ ضلع اسلام آباد میں
درج ہوا میں ملوث ہے کی باقی ماندہ سزا آئین پاکستان کے آرٹیکل 45 کے تحت
ختم کردی ہے۔ 2: صوبائی حکومت کو مذکورہ قیدی کو باضابطہ آگاہ کرنے اور
دیگر تمام متعلقین کی آگاہی کے تحت صدر کی تکمیل کی ہدایت کی جاتی ہے۔ آپ
کا مخلص نور زمان خان سیکشن افسر (پی ٹی این ایس) فون نمبر 051-9207026
فیکس نمبر 051-9219738۔ صدارتی ترجمان اور وفاقی سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر
سے ان کے رابطہ نمبروں پر بار بار رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے جواب نہیں
دیا
0 comments:
Post a Comment