وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف دو روز سے سندھ کے دورے
پر ہیں، پیر کی دوپہر کو انہوں نے مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت
اللہ شاہ راشدی سے ملاقات کی اور انتخاب میں حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی قیادت نے وزیرِاعظم سے ناراضگی کا
اظہار کیا ہے۔ نو منتخب وزیر اعظم متحدہ قومی موومنٹ
نائن زیرو پہنچے جہاں انہوں نے ٹیلیفون پر ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف
حسین سے بات چیت کی، اس موقع پر الطاف حسین کا کہنا تھا کہ راجہ پرویز اشرف
منہ میں سونے کا چمچا لیکر پیدا نہیں ہوئے ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے یہ
ہی لوگ عوام کو مشکلات سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔
الطاف حسین نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی،
رحمان ملک اور حسین حقانی کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے کہا کہ تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا ان
اختیارات سے تجاوز جمہوریت، ملکی استحکام اور مستقبل کے لیے کوئی اچھی بات
نہیں ہے۔
"راجہ پرویز اشرف منہ میں سونے کا چمچا لیکر پیدا نہیں ہوئے ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے یہ ہی لوگ عوام کو مشکلات سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔"
ایم کیو ایم کے سربراہ، الھاف حسین لندن میں گزشتہ تین دہائیوں سے مقیم ایم کیو ایم
کے قائد نے نو منتخب وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ دوہری شہریت کے معاملے پر
آئین میں وضاحت کی جائے کیونکہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستان کی معشیت
میں ریڑھ کی ہڈی رکھتے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے الطاف حسین سے مخاطب ہوکر کہا
کہ وہ سونے کا چمچا تو دور کی بات پیتل کا چمچہ بھی نہیں رکھتے، ان کا
دعویٰ تھا کہ وہ متوسط طبقے کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور ان مشکلات سے گزر
کر آج یہاں تک پہنچے ہیں۔ وزیر اعظم نے الطاف حسین کو یقین دہانی کرائی کہ بجلی کے بحران اور کراچی میں امن امان کے مسئلے کا حل جلد تلاش کر لیا جائے گا۔
اس موقع پر صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ وہ کتنے
دنوں کے لیے وزیر اعظم بنے ہیں۔ وزیر اعظم کا جواب تھا کہ وہ خدا کی رضا سے
اور پارٹی اور اتحادیوں کی مدد سے اس منصب پر پہنچے ہیں اور جب تک وہ
چاہیں گے وہ وزیر اعظم رہیں گے۔
ادھر عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی قیادت نے وزیر
اعظم راجہ اشرف سے ملاقات سے انکار کر دیا۔ تنطیم کے صوبائی صدر بشیر جان
نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گورنر ہاؤس میں آکر ملاقات کرنے
کو کہا گیا تھا جس پر انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔
بشیر جان کے مطابق جب وزیر اعظم دوسری سیاسی
جماعتوں کے دفاتر جا سکتے ہیں تو اے این پی کے پاس کیوں نہیں آسکتے، وہ
کوئی بلیک میلنگ نہیں کرتے مگر کم سے کم ان کی عزت تو کرنی چاہیئے اگر وزیر
اعظم ملنا نہیں چاہتے تو انہیں بھی اس ملاقات سے کوئی دلچسپی نہیں ہ
0 comments:
Post a Comment