وزیراعظم کے مشیر داخلہ رحمان ملک نے آج ٹی وی کے دفتر پر حملے کی سخت نوٹس لیتے ہوئے کراچی پولیس کے سربراہ سے واقعہ تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی ہے۔اس کے علاوہ ملک کی مختلف صحافتی تنظیموں نے فائرنگ کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔خیال رہے کہ پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایک خطرناک جگہ تصور کیا جاتا ہے اور یہاں پر صحافیوں پر حملے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں لیکن بہت کم ہی ایسا ہوا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کا پتہ چل سکا۔اس سے پہلے رواں سال جنوری میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں شبقدر کے مقام پر فائرنگ کے نتیجے میں مہمند ایجنسی کی رپورٹنگ کرنے
والے مقامی صحافی مکرم خان کو ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی لیکن کسی نجی ٹی وی چینل پر طالبان کے حملے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
پاکستان میں میڈیا کی صنعت میں وسیع پیمانے پر توسیع تو ہوئی ہے لیکن اس کے ضابط اخلاق پر نہ تو آج تک اتفاق ہوسکا اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کا کوئی نظام بن سکا۔پاکستان میں اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز کے مالکان، ملازمین کی تنظیمیں ہوں یا سرکاری ادارے ان کے اپنے اپنے ضابط اخلاق ہیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یا پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل امین یوسف کہتے ہیں کہ انیس پچاس میں جب یہ تنظیم بنی اس وقت سے ضابط اخلاق بنایا گیا اور صحافی اس پر عمل کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور اخباری مالکان کی تنظیموں کے اپنے مفادات اور ترجیحات کی وجہ سے آج تک متفقہ ضابطہ طے نہیں ہو سکا۔ ان کے بقول ٹی وی چینلز کی بہتات کی وجہ سے غیر صحافی افراد کو بطور ٹی وی میزبان بھرتی کیا گیا ہے، جسے ان کی تنظیم صحافی ماننے کو تیار نہیں اور ان ہی کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔امین یوسف کہتے ہیں کہ صحافت سے کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے اور جو لوگ بھی رشوت لینے میں ملوث ہیں انہیں بے نقاب کرکے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔پاکستان میں اخبارات اور ویب سائٹس کے خلاف شکایات سننے والے ادارے پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج راجہ شفقت عباسی کہتے ہیں کہ اخباری مالکان ہوں یا ایڈیٹرز کی کونسل، صحافتی تنظیمیں ہوں یا حکومت کے مختلف ادارے ان کے اپنے اپنے ضابطہ اخلاق ہیں جو کہ نہیں ہونے چاہیئیں۔انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ فریق ایک مسودے پر متفق ہوں اور اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا آزاد اور خود مختار ادارہ جب تک نہیں بنے گا، جس میں حکومت کی مداخلت نہ ہو تب تک عملدرآمد نہیں ہوسکے گا۔شفقت عباسی کہتے ہیں کہ پریس کونسل کے ضابطہ اخلاق کے مطابق صحافیوں کو پیسے دینے یا پیسے لے کر کوئی پروگرام کرنے پر پابندی ہے اور اس کی سزا بھی ہے۔ لیکن ان
کے بقول اگر کسی کے خلاف کارروائی کی جائے تو وہ اظہار رائے کی آزادی کا شور مچاتا ہے۔پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنیکی شرط پر کہا کہ تاحال متفقہ ضابطہ اخلاق نہ آنے اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے کا ذمہ داری گزشتہ اور موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول حکومت نے ٹی وی لائسنس پہلے دیے اور قوانین بعد میں بنائے، جو کہ ایسا ہے کہ کسی کو بندوق پہلے دے دیں اور لائسنس بعد میں۔بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب تک غلط معلومات دینے کے خلاف سول سوسائٹی اور عام لوگ متعلقہ ادارے اور افراد کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں حکومتیں میڈیا کا بازو مروڑنے کے لیے ضابط اخلاق متعارف کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں وہاں ذرائع ابلاغ کے مالکان اپنے کاروباری مفادات کو اظہار رائے کی آزادی کی چادر میں لپیٹتے رہے ہیں
0 comments:
Post a Comment